ادھر ہے کون جو اچھا بُرا نہیں کرتا
خفا ہو جاؤ منانے میں کیا نہیں کرتا
گمان کیسا ہے غازی کے در کا نوکر ہوں
لگا کے دیکھ لو دنگل وفا نہیں کرتا
لکھا ہوا ہے یہ تقدیر کا کہوں کیسے
بُرا کسی کا کبھی تو خدا نہیں کرتا
وہ چاہتا تو رہائی ہے میری بانہوں سے
مگر میں پھول سے خوشبو جدا نہیں کرتا
کسی کی یار خوشی سے رہا نہیں مطلب
تِرے لیے بھی دعا اب دعا نہیں کرتا
میں مسکرا کے حسینوں سے بات کرتا ہوں
مگر کسی پہ میں خود کو فدا نہیں کرتا
زیب اوریا
No comments:
Post a Comment