Saturday, 1 May 2021

تیرے پورے بدن پر اک مقدس آگ کا پہرہ ہے

 تیرے پورے بدن پر

اک مقدس آگ کا پہرہ ہے

جو تیری طرف بڑھتے ہوئے

ہاتھوں کے ناخن روک لیتا ہے

تیرے ہونٹوں سے نکلے سانس کی خوشبو

در و دیوار سے رستہ بنا کر

سارے براعظموں میں

پھیل سکتی ہے

تیری بانہیں ابد کو جانے والی

شاہراہیں ہیں

تیری دائیں ہتھیلی کی لکیریں

دوسری دنیاؤں کے نقشے ہیں

جو ان منشیوں کے بس سے باہر ہیں

تیری آنکھیں نہیں یہ

دیوتاؤں کی پناہ گائیں ہیں

جن میں وقت جیسے زہر کا تریاق ہے

تیری زلفوں کی وسعت

اس جہاں کی انتہاؤں سے

پرے تک ہے

تیری گردن

کسی جنت کے پاکیزہ درختوں کے تنے کو

دیکھ کر ترشی گئی ہے

ہمارے جسم پر سے تیری پرچھائیں

گزر جائے تو ممکن ہے کہ

ہم اس موت جیسے خوف سے آزاد ہو جائیں

ہمارے پاس ایسا کیا ہے

جو تجھ کو بتا کر ہم تجھے قائل کریں

بس اتنا ہے کہ اپنے لفظ برسا کر

تیری چھتری پہ بارش پھینک دیں گے

یا تیرے چہرے پہ

اپنی نظم کی اک سطر سے

چھاؤں کریں گے

دھوپ دے دیں گے

مگر کیا فائدہ اس کا کہ

موسم خود تیرے جوتوں کے

تسموں سے بندھے ہیں

تیرے ہمراہ چلنے کی کوئی خواہش

اگر دل میں کبھی تھی بھی تو ہم نے

ترک کر دی ہے

ہم اس لائق نہیں ہیں

ہمیں معلوم ہے کہ اگلے وقتوں میں

یہ لوگ تیرے پیروں کے سانچوں سے

نئی سمتوں کے اندازے لگائیں گے


تہذیب حافی

No comments:

Post a Comment