پڑھ کے دُکھ درد کئی وار سے لگ جاتے ہیں
چند گھاؤ ہمیں اخبار سے لگ جاتے ہیں
آپ کے لفظ تسلی ہی نہیں دیتے فقط
زخم بھی آپ کی گُفتار سے لگ جاتے ہیں
اور ہیں لوگ جو لگتے ہیں تِرے سینے سے
ہم سے بد بخت تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
چار لمحوں کے لیے کوئی خوشی ملتی نہیں
اور دُکھ درد کے انبار سے لگ جاتے ہیں
بخش دیجے گا دمِ وصل شفق ہاتھ مِرے
خود بخود آپ کے رُخسار سے لگ جاتے ہیں
عائشہ شفق
No comments:
Post a Comment