اب ضروری تھا تِرا خواب میں آتے رہنا
گاہے گاہے کسی آہٹ سے جگاتے رہنا
گفتگو رات سے اک لو کی طرح ہے میری
تم مجھے دیکھنا اور رنگ بتاتے رہنا
وقفے وقفے سے اسے دیکھ بھی لینا رک کر
سامنے آئے تو نظریں بھی چُراتے رہنا
شہر ویراں ہوں تو صحرا سے برے لگتے ہیں
اپنے لوگوں سے ذرا ملتے ملاتے رہنا
مرگِ احساس سے آگے ہے یہ اب مرگِ وجود
اپنے لوگوں کو یہ احساس دلاتے رہنا
کتنے خط ہیں جو سرِدست ہی محفوظ کیے
یعنی ملبے کو بھی ہاتھوں سے اٹھاتے رہنا
خستگی خاک کی اچھی ہے مگر چاک پہ تم
ایسا کرنا اسے کوزے سے چھپاتے رہنا
صدف رباب
No comments:
Post a Comment