تمہارے ہجر میں ہر شام محوِ رقص رہے
خمارِ یاد کے سب جام محو رقص رہے
بھلا کے ہستی کو اپنی ہم ایسے مست ہوئے
جنونِ شوق میں ہر گام محو رقص رہے
نظر میں کیسے سماتے نشاط کے لمحے
ہمارے گرد تو آلام محو رقص رہے
جو تیری چھاؤں میں آئے قرار پاتے گئے
جو تجھ سے دور تھے دو گام محو رقص رہے
تجھے ہماری نظر سے نہ دیکھ پائے کوئی
درونِ قلب یہ اوہام محو رقص رہے
شبِ ہلال میں تنہا سرِ مرادِ بام
وہ شوقِ جلوۂ گلفام محو رقص رہے
تمہارے درد سے فرصت نہیں ملی دم بھر
ہمارے سامنے سو کام محو رقص رہے
ہر ایک بزم میں تیرے لیے جھگڑ کے ہم
سرِ تماشۂ انجام محو رقص رہے
عجیب شخص ہے لگتا نہیں گلے سائر
ہم اس کے عشق میں بے دام محو رقص رہے
سائرہ سائر
No comments:
Post a Comment