جو ہمارے بِیچ میں تھا فاصلہ رہنے دیا
اپنی کشتی کا پرانا نا خدا رہنے دیا
لُوٹ کا تھا مال آخر بانٹنا تو تھا ضرور
ہم نے اپنا لے لیا بخرا، تِرا رہنے دیا
روشنی میں بات بربادی کی ہو سکتی نہ تھی
اس لیے تو سب چراغوں کو بُجھا رہنے دیا
کیا شکایت رہ گئی ہے، اب گِلہ باقی ہے کیا
سب لُٹا بیٹھے ہیں اپنے پاس کیا رہنے دیا
اے ہمارے دل کے دشمن تم سے اپنا انتقام
لے تو سکتے تھے مگر اب باخدا رہنے دیا
اپنے اپنے طور کا ہے ہر کوئی جوہر شناس
ہم کو بھائی سادگی، ناز و ادا رہنے دیا
تم گئے تو زندگی کا ہر سلیقہ ختم شد
گھر میں بِکھرا ہم نے کُوڑا جا بجا رہنے دیا
دِل کسی کی راہ میں جو بِچھ گیا سو بِچھ گیا
دخل کیا دینا تھا، ہم نے بس بِچھا رہنے دیا
سرزمیں سے ہم نے دل کی نوچ پھینکے سب شجر
پیڑ اک مہکا ہوا حسرت لگا رہنے دیا
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment