Monday, 1 November 2021

ہنگامۂ ہستی سے گزر کیوں نہیں جاتے

 ہنگامۂ ہستی سے گزر کیوں نہیں جاتے

رستے میں کھڑے ہو گئے گھر کیوں نہیں جاتے

مے خانے میں شکوہ ہے بہت تیرہ شبی کا

مے خانے میں با دیدۂ تر کیوں نہیں جاتے

اب جبہ و دستار کی وُقعت نہیں باقی

رِندوں میں بہ انداز دگر کیوں نہیں جاتے

جس شہر میں گمراہی عزیزِ دل و جاں ہو

اس شہرِ ملامت میں خضر کیوں نہیں جاتے

شاید کہ شناسا ہو کوئی بے ہنری کا

کیوں ڈرتے ہو بازارِ ہنر کیوں نہیں جاتے

ہر لحظہ ہے جو سر کے لیے اک نئی ٹھوکر

اس ذلتِ ہر روز سے مر کیوں نہیں جاتے

ہم جس کے لیے زندہ ہیں با حالِ پریشاں

اب وہ بھی یہ کہتا ہے کہ؛ مر کیوں نہیں جاتے

کیوں گوشۂ خلوت سے نکلتے نہیں اسلم

بیٹھے ہیں جدھر لوگ ادھر کیوں نہیں جاتے


اسلم فرخی

No comments:

Post a Comment