مُدتوں خوب آزماتی ہے
پھر محبت سمجھ میں آتی ہے
رُوپ اپنا اُجالنے کے لیے
زندگی دُھوپ میں نہاتی ہے
سب چراغوں کو ڈس چکی آندھی
ایک دن خود سے ہار جاتی ہے
سارا عالم دُہائی دیتا ہے
رات جب داستاں سناتی ہے
کوئی مایوسیوں کو سمجھائے
چاہ خود راستہ بناتی ہے
کوئی اَن بَن ہوئی ہے گُلشن سے
کیوں صبا لوٹ لوٹ جاتی ہے
رشمی صبا
No comments:
Post a Comment