Monday, 1 November 2021

تمہارے ہاتھ کی چائے ابھی تک یاد ہے مجھ کو

تمہارے ہاتھ کی چائے

ابھی تک یاد ہے مجھ کو

تمہیں بھی یاد تو ہو گا

کہ بھُولی تو نہیں ہو گی

بلا کی سرد شاموں میں

تمہارے ہاسٹل میں بیٹھ کر 

ہم چائے پیتے تھے

تمہاری نک چڑھی سی دوست

مجھ سے خار کھاتی تھی

مجھے بھی زہر لگتی تھی

بھلا سا نام تھا اس کا

بھلا سا نام تھا اس کا

چلو چھوڑو ہمیں کیا لینا دینا

نام سے اس کے

مجھے تو بس یونہی تم یاد آئی تو

تمہارے ساتھ گزرے دن

دنوں سے منسلک وہ سب حوالے یاد آئے ہیں

تمہارے ہاتھ کی چائے

حوالہ ہے محبت کا

تمہارا نیلگوں سا مگ ابھی تک یاد ہے مجھ کو

اسی مگ سے ہم اک اک گھونٹ پیتے تھے

وہی دن تھے کہ جب میں نے سنا تھا یہ

کہ نیلا رنگ ہوتا ہے محبت کا

اسی کارن تمہارا نیلگوں مگ مجھ کو بھاتا تھا

ہم اپنے ہونٹ اس پہ اِک طرف سے ثبت کرتے تھے

سمجھتے تھے کہ بس یہ ہی محبت ہے

یہی تم چاہتی تھیں تم جہاں سے چائے پیتی ہو 

وہیں سے میں پیوں چائے

یہی میری بھی خواہش تھی

عجب دن تھے محبت میں تمہاری جو گزارے ہیں

مگر کب تک

زمانہ جھیلتا کب تک

تِری میری محبت کو

سو اپنے درمیاں بھی اک زمانہ آن ٹھہرا ہے

تمہارے اور میرے درمیاں اک عہد حائل ہے

بڑھی ہیں دوریاں جب سے

تو کتنے کام نپٹانے پڑے ہیں

کیا خبر تم کو

اب ایسا ہے

کہ نقدِ جاں بہت کم ہے

مِرے بالوں میں بھی چاندی جھلکتی ہے

مگر پھر بھی تمہارے ہاتھ کی چائے

اک ایسے مگ میں پینے کو مچلتا ہے یہ دل میرا

کہ جس پہ تیرے اور میرے لبوں کا لمس جیتا ہو


کاشف حنیف

No comments:

Post a Comment