Wednesday 19 October 2022

ربط و نسبت کے تقاضوں کو نبھانے آئے

 ربط و نسبت کے تقاضوں کو نبھانے آئے

ہم تِرے در پہ جبیں اپنی جھکانے آئے

خواب آنکھوں کے، نگاہوں کی چمک، دل کا سکوں

کھو چکے تھے جو کبھی، آج وہ پانے آئے

خوابِ غفلت میں کٹی عمرِ گزشتہ ساری

اب مگر ہوش میں آنے کے زمانے آئے

ہم نے شہرت جو سنی تیری مسیحائی کی

یاد سب زخم نئے اور پرانے آئے

نہیں کہنا تھا کسی سے نہ کہا تھا ہم نے

وہ جو سنتا ہے اسے اپنی سنانے آئے

جس سے تابندہ شب و روز تِرے شہر کے ہیں

ہم اسی نور کی بارش میں نہانے آئے

تجھ سے دوری تو گوارا بھی نہیں تھی ہم کو

کبھی الفت، کبھی طاعت کے بہانے آئے

جس کو عارف ہے شرف ان کی قدم بوسی کا

خاک اس راہ کی آنکھوں میں لگانے آئے


وحیدالقادری عارف

No comments:

Post a Comment