پاگل ہے سو اس کو ساری بات بتانا پڑتی ہے
منظر پر کچھ لکھنا ہو تو آنکھ ہٹانا پڑتی ہے
تعبیروں کے ڈر سے ہم کو خواب بچانے پڑتے ہیں
خوابوں کی تعبیر کی خاطر نیند گنوانا پڑتی ہے
زخموں کی تشہیر نہ ہو سو ڈرتے ڈرتے شعر کہے
ہائے، جن کو داد کی خاطر بھیڑ لگانا پڑتی ہے
شہروں میں جب وحشی بن حیوان نکل کر پھرتے ہوں
انسانوں کو جنگل کی تہذیب سکھانا پڑتی ہے
سیلی آنکھ کا بالن دن بھر دھوپ میں رکھنا پڑتا ہے
دل کے آتشدان میں شب کو آگ جلانا پڑتی ہے
شہرِ دل محفوظ رہے سو ضبط کا پہرہ لازم ہے
در اندازی بڑھ جائے تو باڑ لگانا پڑتی ہے
ہم نے ہر تصویر ہٹا دی گو اس پھول سے چہرے کی
اک تتلی دیوار سے ہم کو روز اڑانا پڑتی ہے
عاطف جاوید عاطف
No comments:
Post a Comment