Wednesday, 19 October 2022

پاگل ہے سو اس کو ساری بات بتانا پڑتی ہے

 پاگل ہے سو اس کو ساری بات بتانا پڑتی ہے

منظر پر کچھ لکھنا ہو تو آنکھ ہٹانا پڑتی ہے

تعبیروں کے ڈر سے ہم کو خواب بچانے پڑتے ہیں

خوابوں کی تعبیر کی خاطر نیند گنوانا پڑتی ہے

زخموں کی تشہیر نہ ہو سو ڈرتے ڈرتے شعر کہے

ہائے، جن کو داد کی خاطر بھیڑ لگانا پڑتی ہے

شہروں میں جب وحشی بن حیوان نکل کر پھرتے ہوں

انسانوں کو جنگل کی تہذیب سکھانا پڑتی ہے

سیلی آنکھ کا بالن دن بھر دھوپ میں رکھنا پڑتا ہے

دل کے آتشدان میں شب کو آگ جلانا پڑتی ہے

شہرِ دل محفوظ رہے سو ضبط کا پہرہ لازم ہے

در اندازی بڑھ جائے تو باڑ لگانا پڑتی ہے

ہم نے ہر تصویر ہٹا دی گو اس پھول سے چہرے کی

اک تتلی دیوار سے ہم کو روز اڑانا پڑتی ہے 


عاطف جاوید عاطف

No comments:

Post a Comment