بھوک کی شدت سے بیٹھا رو رہا ہے
کرب سر پر موسموں کا ڈھو رہا ہے
پاس بوڑھے لیمپ کے، فٹ پاتھ پر
دن تھکن سے چُور ہو کر، سو رہا ہے
وہ کشا کش، گو مگو اس کے سبب
خواب کی تعبیر اپنی کھو رہا ہے
سست رو کچھوے گئے، آگے نکل
بے خبر خرگوش اب بھی سو رہا ہے
آسماں کی، زیر گیتی، سب کہی
بول وہ بھی جو زمیں پر ہو رہا ہے
کم فہم ، کم زور، کم تر، کم نصیب
کانٹے اپنی زندگی میں بو رہا ہے
ڈھیر سے کچرے کے، بھوکے کو ملی
لتھڑی روٹی، نل کے نیچے دھو رہا ہے
کھو چکی ہے قوم سب مال و متاع
جان کیوں ارشاد اپنی کھو رہا ہے
ڈاکٹر ارشاد خان
No comments:
Post a Comment