محبتوں کا یہی مسئلہ نہیں جاتا
ہم اس سے کیسے کہیں کیا کہا نہیں جاتا
وہ درد ہے تو مِرے دل سے کیوں نہیں اٹھتا
یہ درد وہ ہے، جو مجھ سے سہا نہیں جاتا
یہ کس جہان کا نقشہ دیا گیا ہے مجھے
کہ اس کی سمت کوئی راستہ نہیں جاتا
ذرا سی میں نے اسے خود میں کیا جگہ دے دی
اب اپنے آپ میں اس سے رہا نہیں جاتا
میاں وہ کوچۂ جاں ہے وہاں کبھی نہ کبھی
مجھے بتاؤ ذرا، کون سا نہیں جاتا؟
یہ زندگی بھی تو پھر زندگی نہیں رہتی
بچھڑ کے اس سے اگرچہ مَرا نہیں جاتا
تہذیب ابرار
No comments:
Post a Comment