Saturday, 22 October 2022

اپنوں کا ستایا ہوا اپنوں کا ڈسا ہوں

 اپنوں کا ستایا ہوا اپنوں کا ڈسا ہوں

جی جان لٹا آیا مگر پھر بھی برا ہوں

اس جسم کو جھونکا ہے مشقت کی اگن میں

ہر لمحہ مر مر کے جیا جی کے مرا ہوں

ہر روز قلم سر کو کیا ہاتھ سے اپنے

ہر رات کو جذبات کی سولی پہ چڑھا ہوں

اس ملک میں سونے کے نوالے نہیں بھائی

بس ریت ہے اور ریت کو میں پھانک رہا ہوں

جس گھر کو بڑے تاؤ سے تم بانٹ رہے ہو

اس گھر کے بنانے کو شب و روز جلا ہوں

تم سوچتے ہو عیش کا بستر ہے میسر

میں دھوپ کے صحرا میں تھکن اڑا رہا ہو


مسعود حساس

No comments:

Post a Comment