Thursday, 20 October 2022

یوں نہ جاؤ کہ بہت رات ابھی باقی ہے

یوں نہ جاؤ کہ بہت رات ابھی باقی ہے

میرے حصے کی ملاقات ابھی باقی ہے

رات مہکے گی تو خواہش بھی بہک جائے گی

جو نہ ہو پائی ہے وہ بات ابھی باقی ہے

خیر سے مل گئیں راتیں وہ مرادوں والی

آپ کے حسن کی خیرات ابھی باقی ہے

چاندنی رات کا ہر قرض اتارا ہم نے

پیاسے ارمانوں کی بارات ابھی باقی ہے

اس کے ہونٹوں کے گلاب آج بھی تازہ ہیں ضمیر

اک مہکتی ہوئی سوغات ابھی باقی ہے


ضمیر کاظمی

No comments:

Post a Comment