یوں نہ جاؤ کہ بہت رات ابھی باقی ہے
میرے حصے کی ملاقات ابھی باقی ہے
رات مہکے گی تو خواہش بھی بہک جائے گی
جو نہ ہو پائی ہے وہ بات ابھی باقی ہے
خیر سے مل گئیں راتیں وہ مرادوں والی
آپ کے حسن کی خیرات ابھی باقی ہے
چاندنی رات کا ہر قرض اتارا ہم نے
پیاسے ارمانوں کی بارات ابھی باقی ہے
اس کے ہونٹوں کے گلاب آج بھی تازہ ہیں ضمیر
اک مہکتی ہوئی سوغات ابھی باقی ہے
ضمیر کاظمی
No comments:
Post a Comment