Thursday, 20 October 2022

صف ماتم بچھی ہے

 صف ماتم بچھی ہے 

سخن کا آخری در بند ہونے کی خبر نے 

کھڑکیوں کے پار بیٹھے غمگساروں کو 

یہ کیسی چپ لگا دی ہے 

یہ کس کی ناگہانی موت پر سرگوشیوں کی آگ روشن ہے 

کسی کے کنج لب سے کوئی تارا میرے دل پر آن پڑتا ہے 

برا ہو موت کا جس نے مرے فریاد رس کی جان لے لی ہے 

ابھی اس کی ضرورت تھی 

میں اس دنیا کے اک گوشے میں بیٹھا سوچتا ہوں 

آج اس ویران منڈلی میں 

میں کس کو پُرسہ دینے کے لیے آیا ہوں 

مجھ کو تعزیت تو خود سے کرنا تھی 

ابھی اس گھر سے اک میت سدھاری ہے 

دمِ رخصت 

کسی نے نکہتِ زلفِ پریشاں کا نہیں پوچھا 

کسی نے دکھ کے اندر روشنی کی چھب نہیں دیکھی 

مکاں سے پھوٹنے والی روش پر 

ایک بچہ رو رہا ہے 

آج اس کے آنسوؤں کو کون پونچھے گا 

کہ اس کے ساتھ جو شطرنج کی بازی لگاتا تھا 

وہ اب زیرِ زمیں اک چادر سادہ کی خوشبو ہے 

یہاں صبحیں بھی آئیں گی 

یہاں شامیں بھی اتریں گی 

مگر اک ہچکیاں لیتا ہوا بچہ 

چراغ آرزو بن کر 

سرِ طاقِ لحد گونگی زمیں کی لب کشائی تک پکارے گا 

برا ہو موت کا جس نے مِرے فریاد رس کی جان لے لی ہے


عباس تابش

No comments:

Post a Comment