Saturday, 22 October 2022

جب سے دیکھی ہے وہ شبنمی سی چشم

شبنمی چشم


جب سے دیکھی ہے وہ شبنمی سی چشم 

اُس میں ڈُوبا تو مجھ راز کُھلا

آنکھ پر کُھل گئے نہاں منظر

خاک اُڑائی ہے قیس نے جتنی 

اور فرہاد نے تنِ تنہا 

جس طرح کوہِ بے ستوں کاٹا 

غم رانجھے نے جس طرح کاٹا 

وقت کے خوفناک بیلے میں

کیسے پُنوں نے تھل کی گرمی میں 

اپنی سانسوں کو آگ میں جھونکا 

جو بھی گُزرا ہے سانحہ جس پر 

شبنمی چشم کا کیا دھرا ہے 

آنکھ پر کیا کُھلے نہاں منظر 

جاں کے لالے پڑے ہوئے ہیں مجھے 

جب سے دیکھی وہ شبنمی سی چشم 

مجھ کو سو فیصدی یقین ہُوا

میرا انجام بھی وہی ہو گا

مجھ سے پہلے ہوا جو یاروں کا 


ریاض احمد احسان

No comments:

Post a Comment