Tuesday 18 October 2022

چلے بھی آؤ تمہارے بغیر تھک گئے ہیں

 چلے بھی آؤ تمہارے بغیر تھک گئے ہیں

کہ باغِ ہجر کی ہم کر کے سیر تھک گئے ہیں

کہاں کہاں مِری نظروں نے تجھ کو ڈھونڈا نہیں

کہیں تو مل، مِری آنکھوں کے پیر، گئے ہیں

وہ دن کا بُھولا ہوا شام کو نہیں لوٹا

بتاؤ کس کو کہیں شب بخیر، تھک گئے ہیں

اٹھا کے بوجھ محبت میں ایک رشتے کا

اب ایک دُوجے کو لگتے ہیں غیر، تھک گئے ہیں

ہمیں نصیب نے پھینکا گھما کے دریا میں

کنارہ ملتا نہیں، تیر تیر تھک گئے ہیں


اسامہ سرفراز

No comments:

Post a Comment