چلے بھی آؤ تمہارے بغیر تھک گئے ہیں
کہ باغِ ہجر کی ہم کر کے سیر تھک گئے ہیں
کہاں کہاں مِری نظروں نے تجھ کو ڈھونڈا نہیں
کہیں تو مل، مِری آنکھوں کے پیر، گئے ہیں
وہ دن کا بُھولا ہوا شام کو نہیں لوٹا
بتاؤ کس کو کہیں شب بخیر، تھک گئے ہیں
اٹھا کے بوجھ محبت میں ایک رشتے کا
اب ایک دُوجے کو لگتے ہیں غیر، تھک گئے ہیں
ہمیں نصیب نے پھینکا گھما کے دریا میں
کنارہ ملتا نہیں، تیر تیر تھک گئے ہیں
اسامہ سرفراز
No comments:
Post a Comment