Tuesday, 18 October 2022

زندگی ون ون ٹو ٹو نہیں ہو سکتی

 One-One-Two-Two


جب گریویٹی کی فرِکشن بامِ تھران کے پہاڑوں کو

جھنجھوڑتی ہے

شور مچاتی زندگیاں

کہرام مچاتی سڑکوں پر فراٹے سے سرپٹ بھاگتی ہیں

حادثہ آنکھیں کھولتا ہے

سرخیلے پلکاروں سے مت گت لاوا بہاتے ہوئے

جاودانہ زیر و بم کی نکاسی کے بخیے ادھیڑتا ہے

شب کے درپن کی لالی آسمان سر پہ گرانے کی رغبت رکھتی ہے

زندگی ڈگر مگر ہو کر رہ جاتی ہے

حادثہ شاطر ہے

اس نے شہر کے سبھی ٹو میٹرز کو رشوت خور بنا دیا ہے

جو کسی کسک یا کارِ ظلمت میں

شہر کی حدود کے اندر داخل نہیں ہو سکتے

زندگی مافیائی کوٹھے پر نِشچِنت بیٹھی

گراہکوں کا بیک وقت انتظار کرتے ہوئے ہلکان ہو جاتی ہے

حادثہ مظلوم ہے، جو نہیں جانتا

اس کی آنکھ گھاٹی، سلوٹ زدہ بستر

یا لڑکھتے سٹریچر پر کھلے گی

اتنا مظلوم

کمر کے چھٹے مہرے کے لچکنے پر دھڑ توڑ کر رکھ دے

زندگی فلٹر زدہ سیلفی نہیں

جس کا روغن فوٹو شاپ کی مدد سے 

رنگین یا بلیک اینڈ وائٹ ہو سکے

زندگی عدسہ نہیں

جو آسودۂ حال کا پرچار کر سکے

گریوٹی کی فرکشن سرکنڈوں کے پیچھے نوحہ کناں ہے

حادثہ آنکھیں ملتے ہوئے فرار ہو رہا ہے

جب تک ریسکیو ٹو میٹرز نہ ہوں گے 

زندگی ون ون ٹو ٹو نہیں ہو سکتی


علی زیوف

No comments:

Post a Comment