Tuesday, 18 October 2022

جفاؤں کی نمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں

 جفاؤں کی نمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

ستم گر کی ستائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

مجھے تنہائی پڑھنی ہے مگر خاموش لہجے میں 

یہی محفل کی خواہش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

مِرے افکار پہ بولے بڑی تہذیب سے زاہد 

مقدر آزمائش ہے، کسی سے کچھ نہیں بولیں 

یہ جو بے حال سا منظر یہ جو بیمار سے ہم تم 

سیاست کی نوازش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

ادھر ہے جام ہاتھوں میں، لبوں پہ مسکراہٹ ہے 

ادھر جب خوں کی بارش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

ملازم بننا تھا کس کو، ملازم بن گیا کوئی 

ہنر زیر سفارش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

زباں آزاد ہے جو بھی وہی تو زندہ ہے لیکن 

زباں پہ کیسی بندش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

عداوت کی یہاں اظہر جو اک چنگاری اٹھی تھی 

وہ بنتی جاتی آتش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں


اظہر ہاشمی

No comments:

Post a Comment