پانے کا ذکر کیا کہ گنوانا بہت ہُوا
دل اس کی بے رخی کا نشانہ بہت ہوا
خوابوں کی گٹھری لاد کے کب تک جئیں گے ہم
پلکوں پہ ان کا بار اٹھانا بہت ہوا
ہوتا ہے درد، جب کبھی آ جائے اس کا ذکر
گو زخمِ دل ہمارا پرانا بہت ہوا
مجھ کو نہیں قبول تمہارا کوئی جواز
اب روز روز کا یہ بہانہ بہت ہوا
اوروں کے درد و غم کا پتا چل گیا ہے نا
اب تو ہنسو کہ رونا رُلانا بہت ہوا
تعبیر چاہیے مجھے، تدبیر کیجیے
آنکھوں کو خواب واب دِکھانا بہت ہوا
فرزانہ! کوئی بات غزل میں نئی کہو
ذکرِ وصال و ہجر پرانا بہت ہوا
فرزانہ پروین
No comments:
Post a Comment