دل میں کوئی چراغ فروزاں نہ کر سکے
ہم زندگی میں کیف کا ساماں نہ کر سکے
امکانِ فہمِ سوزِ دروں بھی نہیں رہا
احساسِ دردِ دل لبِ خنداں نہ کر سکے
دامن بچا بچا کے چلے خار زار سے
خونِ وفا سے پھر بھی گریزاں نہ کر سکے
ہم کو نظر بچا کے گزرنا پڑا، مگر
تم کو نظر مِلا کے پشیماں نہ کر سکے
ارماں کئی کیے کئی پورے ہوئے مگر
ارمان جس کا تھا وہی ارماں نہ کر سکے
روشن کئی دیے تھے چراغاں کے واسطے
لیکن فروغِ شمعِ شبستاں نہ کر سکے
سمجھے الجھ کے حالِ پریشاں میں آج ہم
تعبیرِ حرفِ خوابِ پریشاں نہ کر سکے
لب بستگی ضرور تھی آنکھیں تو تھیں کھلی
اظہار اپنے حال کا ناداں نہ کر سکے
قائل ضرور سرمد و منصور کے رہے
پیدا وہ خود میں جذبۂ ایماں نہ کر سکے
وہ تو نوازتے رہے ہر آن، ہر گھڑی
ہم ہی علاجِ تنگئ داماں نہ کر سکے
جدوجہد میں کٹ گئی عارف تمام عمر
اب تک حصولِ مقصدِ عرفاں نہ کر سکے
وحیدالقادری عارف
No comments:
Post a Comment