Tuesday 18 October 2022

مرا کلام فقط روزنامچہ نہیں تھا

 مِرا کلام فقط روزنامچہ نہیں تھا

اسے کلام سے کچھ بھی تو واسطہ نہیں تھا

یہ کیسی رسمِ محبت تمہارے شہر میں تھی

کہ جس میں دل کا کوئی بھی معاملہ نہیں تھا

تمہارا دل تو سرائے تھا دل نہیں تھا اے دوست

مسافر آئے کہ جائے مناقشہ نہیں تھا

شکستہ شہر تھا بچنا تھا کس طرح اس نے

کہ اس کے گرد وفا کا محاصرہ نہیں تھا

یہ تم جو پوچھ رہے ہو کہ مجھ کو کیا غم ہے

یہ دل کا ٹوٹنا گویا کہ حادثہ نہیں تھا

میں اس کو شہرِ کم آزار کس طرح لکھتا

شکستِ دل کا جہاں کوئی ضابطہ نہیں تھا

میں ان ستاروں کے نحس و سعد کو مانتا نئیں

سو میرے ہاتھ میں کوئی بھی زائچہ نہیں تھا

یہ راہِ عشق بھی اشکر تھی کوئی بند سی گلی

کہ واپسی کا کوئی بھی تو راستہ نہیں تھا


اشکر فاروقی

No comments:

Post a Comment