صدر نے اپنی صدارت کو بچا رکھا ہے
پایۂ تخت کو دانتوں سے دبا رکھا ہے
وہ کتابوں کو مصالحے کی طرح چاٹتے ہیں
جیسے اِدراک میں ادرک کا مزا رکھا ہے
یہ مِری قوم ہے کمزور و مقدس گائے
جس نے مہنگائی کی چُھریوں پہ گَلا رکھا ہے
اب یہاں شاخ پہ اُلو🦉 نہیں بیٹھا کرتے
اب اسمبلی کی نشستوں پہ گدھا رکھا ہے
مس شگفتہ سے جو ہیں چپکے ہوئے ایک بزرگ
ٹیوب لائٹ کی برابر میں دِیا رکھا ہے
مار ڈالے گی تِرے شعلۂ رخسار کی ہیٹ
ایسا لگتا ہے کہ چولہے پہ توّا رکھا ہے
ابھی آیا ہوں شکاگو میں غزل لُڑھکا کے
ہیوسٹن کے لیے سامان بندھا رکھا ہے
کوئی جنت میں نہ جائے گا بِنا پرمٹ کے
اس نے ہر گیٹ پہ اللہ رکھا، رکھا ہے
خالد عرفان
No comments:
Post a Comment