لبوں پہ آ کے قلفی ہو گئے اشعار سردی میں
غزل کہنا بھی اب تو ہو گیا دشوار سردی میں
محلے بھر کے بچوں نے دھکیلا صبح دم اس کو
مگر ہوتی نہیں اسٹارٹ اپنی کار سردی میں
مئی اور جون کی گرمی میں جو دلبر کو لکھا تھا
اسی خط کا جواب آیا ہے آخر کار سردی میں
دوا دے دے کے کھانسی اور نزلے کی مریضوں کو
معالج خود بے چارے پڑ گئے بیمار سردی میں
کئی اہلِ نظر اس کو بھی ڈسکو کی ادا سمجھے
بے چارہ کپکپایا جب کوئی فنکار سردی میں
یہی تو چوریوں اور وارداتوں کا زمانہ ہے
کہ بیٹھے تاپتے ہیں آگ پہریدار سردی میں
لہو کو اس طرح اب گرم رکھتا ہے مِرا شاہین
کبھی چائے، کبھی سگرٹ، کبھی نسوار سردی میں
سرفراز شاہد
No comments:
Post a Comment