ہو نہ سکی سحر میری کئی راتوں کے بعد
نا آشنا ہی رہے ہم کئی ملاقاتوں کے بعد
حال دل ہو بیان کیسے؟ اس کی محفل میں
ہو جاتی ہے زبان گُنگ ابتدائی مناجاتوں کے بعد
خون ناحق کے دھبے جو لگے تھے ہاتوں پر میرے
دُھل نہ سکے ہیں اب تک کئی برساتوں کے بعد
ہماری ہار کو اتنا بھی حقیر نہ جانو دوستو
کہ اُٹھ جاتے ہیں اکثر مفتوح بھی کئی ماتوں کے بعد
بن کے واعظ یہ آرزو رہی عمر بھر خاکی
کہ ہو جاتا کوئی اچھا عمل ان خرافاتوں کے بعد
وسیم احمد خاکی
No comments:
Post a Comment