سبھی کو چُپ کرا دیتا تھا ایسا بولتا تھا
یہ دریا سُوکھنے سے پہلے کتنا بولتا تھا
تمہارے شہر کے لوگوں نے کڑوا کر دیا ہے
میں جب گاؤں میں رہتا تھا تو میٹھا بولتا تھا
وہ اب بھی لوگوں کو دریا دکھا کر کہتی ہو گی
وہ ایسے شور کرتا تھا،۔ وہ اتنا بولتا تھا
زباں کھلتی نہیں تھی اس کی اک شہرن کے آگے
جو لڑکا گاؤں میں سب سے زیادہ بولتا تھا
ہواؤں میں بسی ہوتی تھی خوشبو اس بدن کی
یہاں سے وہ ابھی گزرا تھا، رستہ بولتا تھا
صغیر صفی
No comments:
Post a Comment