مدت کے بعد اس نے لکھا میرے نام خط
میری شکایتوں سے بھرا ہے تمام خط
گھبرا نہ اس قدر دل بے تاب صبر کر
آتا ہے کوئی روز میں اب صبح و شام خط
لکھا ہوا ہے خاص تمہارے ہی ہاتھ کا
پہچانتا ہے خوب تمہارا غلام خط
تحریر ان کی سینہ پہ رکھ دیجیو مِرے
بدلے جواب نامہ کے آئے گا کام خط
لکھا ہے اب نہ لکھیں گے ہم کوئی خط تجھے
خط آیا، میری موت کا لایا پیام خط
ضائع نہ جائے گی تِری محنت کسی طرح
قاصد اجورہ دیتا ہوں چٹکی میں تھام خط
عاشق نوازیاں ہیں طبیعت میں یار کی
لکھا ہے ہر مہینے میں بھیجو مدام خط
تحریر کر کے سیکڑوں وعدے مُکر گئے
دکھلاؤں گا حضور کو روزِ قیام خط
خط لکھ کے آج ڈاک پہ پہنچیں گے یار کو
پہنچائے گا ہمارا پیام و سلام خط
آغا، نثار ہو جیے،۔ انعام دیجیۓ
لایا ہے ان کا قاصد صرصر خرام خط
آغا اکبرآبادی
No comments:
Post a Comment