پیچھے نہ کہیں میرے، کہ تنگ آ کے مَرا تھا
کہتے ہیں مِرا باپ بھی کچھ کھا کے مَرا تھا
تلوار کوئی سر سے بہت دور تھی اس کے
وہ مرنے کے ہی خوف سے گھبرا کے مرا تھا
سب پیار سے رہنا،۔ نہ کہ دیوار اٹھانا
بوڑھا سبھی بچوں کو یہ سمجھا کے مرا تھا
میداں میں شہادت کو ترستا رہا غازی
زخمی بھی ہوا ایسا، کہ گھر جا کے مرا تھا
درجے میں وہ سورج سے دِیا کم تھا بھلا کیا
کمرے کے جو اک گوشے کو چمکا کے مرا تھا
بدنامی کے کچھ داغوں سے ظاہر تھا کفن پر
ہاتھ اپنے یہ شاید کہِیں پھیلا کے مرا تھا
شاعر تھا شکیب اچھا، پریشانی میں آ کر
چلتی ہوئی گاڑی سے جو ٹکرا کے مرا تھا
احسان میں جس رازِ حقیقی میں ہوا مست
وہ راز قلندر مجھے بتلا کے مرا تھا
احسان الحق
No comments:
Post a Comment