تجھے ہم ایسے بہ صد احترام دیکھتے ہیں
کہ جیسے شاہ کی جانب غلام دیکھتے ہیں
تمام رات چراغوں نے ہچکیاں جھیلیں
ہوا کا جبر بہت بے لگام دیکھتے ہیں
طویل دن کا تبسم بھی رائیگاں ٹھہرا
سحر گزیدہ نگاہوں سے شام دیکھتے ہیں
تمیزِ باطل و حق امتیاز ہے اپنا
خبر غلط ہے کہ ہم صرف نام دیکھتے ہیں
غریبِ شہر کی بیٹی جہیز کو ترسے
امیرِ شہر کا ایسا نظام دیکھتے ہیں
کٹے پھٹے ہوئے جسموں پہ سرخ سرخ لباس
برائے جشنِ شکست، اہتمام دیکھتے ہیں
خدا کرے کوئی سورج کو مخبری نہ کرے
گلوں پہ اوس کے اجلے خیام دیکھتے ہیں
سلامتی کی سحر دور اب نہیں عباس
بہت قریب ظہورِ امامؑ دیکھتے ہیں
حیدر عباس
No comments:
Post a Comment