ذرا بھی خوف نہیں ہے اسے خسارے کا
وہ آدمی ہے کسی اور ہی ستارے کا
نہ جانے میز پہ کب سے اداس بیٹھی ہوں
جواب نہ میں جو آیا ہے استخارے کا
ہیں اس مزاج کی سب تلخیاں قبول مجھے
کوئی ملا تو سہی مجھ کو اپنے وارے کا
وہ کینوس پہ بناتا رہا حسیں منظر
ہماری آنکھ میں ڈوبے ہوئے ستارے کا
انا کی جنگ تو دونوں ہی ہار بیٹھے ہیں
میں اپنا سوگ مناؤں کہ اپنے پیارے کا
سحر علی
No comments:
Post a Comment