Saturday, 22 October 2022

ذرا بھی خوف نہیں ہے اسے خسارے کا

 ذرا بھی خوف نہیں ہے اسے خسارے کا

وہ آدمی ہے کسی اور ہی ستارے کا

نہ جانے میز پہ کب سے اداس بیٹھی ہوں

جواب نہ میں جو آیا ہے استخارے کا

ہیں اس مزاج کی سب تلخیاں قبول مجھے

کوئی ملا تو سہی مجھ کو اپنے وارے کا

وہ کینوس پہ بناتا رہا حسیں منظر

ہماری آنکھ میں ڈوبے ہوئے ستارے کا

انا کی جنگ تو دونوں ہی ہار بیٹھے ہیں 

میں اپنا سوگ مناؤں کہ اپنے پیارے کا


سحر علی

No comments:

Post a Comment