میں اپنی ذات کا کافر ہوں، کیوں اپنے آگے جھک جاؤں
بے مول کی قیمت کیا دو گے جو آپ کے ہاتھوں بِک جاؤں
تم عشق کا دعویٰ کرتے ہو، کیا آنکھ بصیرت والی ہے؟
تِرے جذبے سچے تب مانوں جب اندر تک میں دِکھ جاؤں
جو ٹوٹ گیا، سو ٹوٹ گیا، اب دل کی راکھ بہانی ہے
پر یادیں مجھ سے کہتی ہیں میں پل دو پل کو رُک جاؤں
کل شب میں تنہا بیٹھا تھا بچپن کی یادیں آ پہنچیں
دل کرتا تھا بے فکری کی اس دنیا میں پھر چھپ جاؤں
او ڈھول پیا! آ ویکھ ذرا، تِری کملی نچ نچ تھک گئی اے
ہُن بس کر دے، تے سامنے آ، میں تیرے اندر لُک جاؤں
میں عاشق اپنے مُرشد کی مجھے ان باتوں سے کیا مطلب
گر تم دیوار میں چُنوا دو، یا میں دیوار میں چُن جاؤں
ہر ویلا میرا ویلا ہے، ہر ویلے سے ہے پیار مجھے
دل کرتا ہے اس میلے کا اک ویلا بن کے مُک جاؤں
اب چھوڑوں جان میں دنیا کی، جی کرتا ہے اب مر جاؤں
اور جاتے جاتے میں اپنی اک رام کہانی لکھ جاؤں
مِری مٹی دیکھ کے مٹی کو بس مٹی مٹی کرتی ہے
من کہتا ہے اس بار علی! اس مٹی اندر مٹ جاؤں
علی سرمد
No comments:
Post a Comment