کسی درگاہ پہ منت نہیں مانی جائے
اب کہاں اور محبت یہ پرانی جائے
ایک افسانہ کبھی ایسا تو لکھے کوئی
آگے کردار چلیں، پیچھے کہانی جائے
کوئی دھونی، کوئی منتر کوئی تعویذ ہی ہو
دلِ بیمار سے یادوں کی نشانی جائے
سب خساروں کو کیا جمع تو حاصل نکلا
دلِ ناداں کی کوئی بات نہ مانی جائے
منتقل اس کو کیا جائے یہاں سے بشریٰ
دل سے درد کی بد روح پرانی جائے
بشریٰ فرخ
No comments:
Post a Comment