عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جاہ و حشم نہ درہم و دینار سے غرض
ہے عاشقوں کو سنگِ درِ یار غرض
ہے جان یہ ہتھیلی پہ راہوں میں عشق کی
سُولی سے کوئی خوف نہ ہی دار سے غرض
دل میں اگر ہے پھُول کو پانے کی آرزو
رکھنا پڑے گا آپ کو پھر خار سے غرض
اپنا دیارِ یار سے ایسا ہے واسطہ
کشتی کو جیسے ہوتی ہے پتوار سے غرض
نظارہ ان کے رُخ کا ہو چاہے کسی طرح
ہے ان کے عاشقوں کو تو دیدار سے غرض
کیا خاک رنگ لائے گی رِندوں کی مے کشی
ساقی نہیں رکھے گا جو میخوار سے عرض
تنہائی، یادیں، دیدِ کی حسرت، غمِ فراق
فیصل ہے عاشقوں کو انہی چار سے غرض
فیصل گنوری
No comments:
Post a Comment