میں ازل کی سمت اُلٹی جست بھر جاؤں اگر
عالموں کو جیب میں ڈالے گُزر جاؤں اگر
دے چکے تم حافظہ بھی، سوچ بھی، احساس بھی
میرے ہاتھوں میں ہے سب کچھ ، میں مُکر جاؤں اگر
میرے اک ذرّے میں گُم ہو جائیں یہ دونوں جہاں
ترک کر دوں مُرتکز رکھنا، بکھر جاؤں اگر
تُو ہے جس منجدھار میں اس کا سفر تو مجھ سے ہے
مُنجمد ہو جائے سب کچھ میں ٹھہر جاؤں اگر
دوسرے قالب میں آ جاؤں اسی پل سامنے
اک یہ سازش بھی اسی کمرے میں کر جاؤں اگر
تو پل جھپکائے، میں اپنے کنارے توڑ دوں
اور خلا کے ان گنت ملکوں میں بھر جاؤں اگر
یہ بھی ممکن ہے تجھے میں اتفاقاً ڈھونڈ لوں
ڈھونڈنے صدیوں سحر سے تا سحر جاؤں اگر
مرنے والوں کی صفوں میں ایستادہ اس جگہ
جینے والو! سوچتا ہوں، میں امر جاؤں اگر
عبدالقیوم صبا
No comments:
Post a Comment