ہم کھڑے فٹ پاتھ پر زخموں کو سہلاتے رہے
دوستوں کے قافلے آتے رہے، جاتے رہے
کچھ مِری رُوداد غم ہی بزم کو تڑپا گئی
کچھ تِری آنکھوں کے ساغر بھی چھلک جاتے رہے
اُف بدلتے موسموں کی بے پنہ رنگینیاں
یہ شکاری دشت میں بھی دام پھیلاتے رہے
آہ، وہ یادیں جو دل پر مرتسم سی ہو گئیں
ہائے، کیا دلکش مناظر تھے جو فلماتے رہے
ہم سبھی لوگوں کی باتیں سن کے لب بستہ رہے
سب ہمیں کو مُوردِ الزام ٹھہراتے رہے
پھُول ایسے جسم میں پتھر کا دل کیسے ظفر
آج تک ہم تو اسی گُتھی کو سُلجھاتے رہے
قاضی ظفر اقبال
No comments:
Post a Comment