Monday 16 September 2024

باندھ کر کمر جب بھی ہم پئے سفر نکلے

 باندھ کر کمر جب بھی ہم پئے سفر نکلے

زندگی کے سب رستے تیری رہگزر نکلے

سوچتے ہیں کیوں آخر ذوق سجدہ ریزی میں

ہم جہاں جبیں رکھیں وہ تِرا ہی در نکلے

جو تھے ناپنے والے زخم دل کی گہرائی

 اپنی شوخ نظروں سے کتنے بے خبر نکلے

سوچتے ہیں کیا ہو گا حال پھر بہاروں کا

شہر لالہ و گُل سے ہم جو رُوٹھ کر نکلے

وقت کے اندھیرے میں زیست کی سیاہی میں

روشنی کے افسانے کتنے مختصر نکلے

حُسنِ آرزو کس کی، عشقِ مُدعا کس کا

اس ہجوم حیراں میں دونوں بے خبر نکلے

ہم جنہیں سمجھتے تھے نرم رُو حسین سائے

وہ سوادِ صحرا میں تیز دو پہر نکلے

مے کدے کے دروازے بند ہو گئے ناظم

تشنگی مقدّر کی لے کے ہم جدھر نکلے


ناظم سلطانپوری

No comments:

Post a Comment