باندھ کر کمر جب بھی ہم پئے سفر نکلے
زندگی کے سب رستے تیری رہگزر نکلے
سوچتے ہیں کیوں آخر ذوق سجدہ ریزی میں
ہم جہاں جبیں رکھیں وہ تِرا ہی در نکلے
جو تھے ناپنے والے زخم دل کی گہرائی
اپنی شوخ نظروں سے کتنے بے خبر نکلے
سوچتے ہیں کیا ہو گا حال پھر بہاروں کا
شہر لالہ و گُل سے ہم جو رُوٹھ کر نکلے
وقت کے اندھیرے میں زیست کی سیاہی میں
روشنی کے افسانے کتنے مختصر نکلے
حُسنِ آرزو کس کی، عشقِ مُدعا کس کا
اس ہجوم حیراں میں دونوں بے خبر نکلے
ہم جنہیں سمجھتے تھے نرم رُو حسین سائے
وہ سوادِ صحرا میں تیز دو پہر نکلے
مے کدے کے دروازے بند ہو گئے ناظم
تشنگی مقدّر کی لے کے ہم جدھر نکلے
ناظم سلطانپوری
No comments:
Post a Comment