تند موجوں کا جنوں دیکھو کہاں تک آ گیا
سیل بے ہنگام خطرے کے نشاں تک آ گیا
اب نہ میری بے گناہی کی صفائی دیجیے
اب جو میرا مسئلہ ہے داستاں تک آ گیا
اس پری پیکر کا ہر اک وصف کر دوں گا بیاں
جب کبھی میرا قلم حُسنِ بُتاں تک آ گیا
ایک دن میں بھی شریک کارواں ہو جاؤں گا
یہ غنیمت ہے میں گرد کارواں تک آ گیا
پھر ہماری خواہشیں گروی نہ رکھنا ان کے ہاں
ظرف جن کا ’’خود عیاں را چہ بیاں‘‘ تک آ گیا
آسمانوں پر کسی دن کھلبلی مچ جائے گی
جب کوئی جذبہ مِرا آہ و فغاں تک آ گیا
پاک دامانی تِری اس وقت ہو گی سرخرُو
جب یقیں محکم مقامِ جاوداں تک آ گیا
گردشِ دوراں کا شوکت اس لیے ممنون ہوں
در بدر پھرتا ہوا اپنے مکاں تک آ گیا
غلام فرید شوکت
No comments:
Post a Comment