حسرت بھری نگاہوں کو آرام تک نہیں
پلٹا وہ زندگانی کی پھر شام تک نہیں
جس کی طلب میں زندگی اپنی گُزار دی
اس بے وفا کے لب پہ مِرا نام تک نہیں
جو کہہ گئے تھے شام کو بیٹھیں گے آج پھر
کچھ سال ہو گئے کوئی پیغام تک نہیں
یہ رونقِ خیال تِری دید تک ہی تھا
مے تو ہے بات دُور کی اب جام تک نہیں
مدفن ہوں تیرے ہجر کی اک ایسی قبر میں
کتبے پہ جس کے آج کوئی نام تک نہیں
بے اختیار اُٹھتے ہیں میرے قدم ادھر
حالاں کہ اس گلی میں مجھے کام تک نہیں
اس نے مُراد شہر میں چرچا بہت کیا
میرے لبوں پہ ایک بھی الزام تک نہیں
علی مراد
No comments:
Post a Comment