شاخ سے ٹُوٹ کے جب پھُول بکھر جاتے ہیں
کتنے احساس مِرے دل میں اتر جاتے ہیں
میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں بڑی حسرت سے
وہ مِرے پاس سے چُپ چاپ گُزر جاتے ہیں
چاند تاروں پہ تعجب کی نظر پڑتی ہے
جانے کس سمت سے آتے ہیں، کدھر جاتے ہیں
غم کا طُوفان کسی روز تو تھم جائے گا
چڑھ کے دریا بھی تو اک روز اُتر جاتے ہیں
ایک سا وقت نہیں رہتا کبھی بھی کاوش
دن بہر طور، کسی طور گُزر جاتے ہیں
آفتاب کاوش
No comments:
Post a Comment