پتے سے گِر کے درس فنا دے گیا مجھے
بارش کا قطرہ سرِ قضا دے گیا مجھے
جب تک یقیں نہیں تھا کوئی خوف بھی نہ تھا
خوفِ خدا، یقینِ خدا دے گیا مجھے
اس دشتِ روزگار میں جلتی لوؤں کے ساتھ
ٹھنڈا سا اک خیال ہوا دے گیا مجھے
دُکھ میں گِھرے ہوؤں میں جو پہنچا تو تیرے ساتھ
گُزرا ہوا وہ لمحہ صدا دے گیا مجھے
ایزد بس ایک نُقرئی سکے کے واسطے
درویش زندگی کی دُعا دے گیا مجھے
ایزد عزیز
No comments:
Post a Comment