یہ الگ بات کہ دونوں سے نبھایا نہ گیا
پیار خُوشبو تھا کسی طور چُھپایا نہ گیا
تیری فُرقت میں تو یوں گیت ہزاروں لکھے
تیری قُربت میں تو اک حرف اُٹھایا نہ گیا
یومِ اِطفال پہ ہر شخص بہت کچھ بولا
ایک بِن باپ مگر گھر میں بسایا نہ گیا
مجھ کو ہر داعئ عرفاں سے یہی شکوہ ہے
کس لیے ظُلم زمانے سے مٹایا نہ گیا
جن کا منشور مساوات تھا شاہد ان سے
عدل و انصاف کا دستور بنایا نہ گیا
رفیق شاہد
No comments:
Post a Comment