Tuesday, 17 September 2024

شبخون ماریں آپ اور لاشیں اٹھاؤں میں

 شبخُون ماریں آپ، اور لاشیں اُٹھاؤں میں

پتھر ہوں جو، نہ خون کے آنسو بہاؤں میں

گُلچیں ہی جب ہو قاتلِ گُل تو بتاؤ پھر

حالِ چمن اے بُلبلو، کس کو سُناؤں میں

ڈھائے جا تُو ستم پہ ستم اے امیرِ شہر

اور اس پہ یہ ستم کہ تِرے گیت گاؤں میں

بھٹکا رہا میں مُدتوں، جی چاہتا ہے اب

رِندوں کو کھینچ کھانچ کے مسجد میں لاؤں میں

روشن خیالو! خام خیالی ہے آپ کی

ناچیں وطن کی بیٹیاں، ڈھولک بجاؤں میں

فیضانِ خاص ہے یہ، تکبر نہیں کوئی

کافر ملے تو اس کو مُسلماں بناؤں میں

ایسا ہوا، نہ ہو گا، صدف جیتے جی کبھی

پائے یزید وقت پہ سر کو جھُکاؤں میں


عبدالرزاق صدف

No comments:

Post a Comment