وفا کی بات ہے اہل وفا سے پوچھیں گے
یہ دل کی بات کسی دلرُبا سے پوچھیں گے
وہ کیسے ہجر کی راتیں گزارتا ہو گا
سحر کے وقت یہ بادِ صبا سے پوچھیں گے
یوں کتنی دیر ابھی اور ہم کو چلنا ہے
ہم عہد نو کے کسی رہنما سے پوچھیں گے
ہمیں خبر ہی نہیں گزرے ہیں کس اذیت سے
بجھے چراغوں کا قصہ ہوا سے پوچھیں گے
بھٹکتے پھرتے ہیں جس کے سبب یوں صحرا میں
جو لوٹ آئے تو اُس خوش ادا سے پوچھیں گے
کچھ اس طرح ہمیں لوٹا گیا ہے منزل پر
سمجھ میں آتا نہیں، رہنما سے پوچھیں گے
گزر رہی ہے یہ کیسے عذاب سے ہستی
کسی فقیر سے، اہلِ رضا سے پوچھیں گے
فلک سے اُتریں گی کب تک مسرتیں کیفی
بوقتِ سجدہ کبھی ہم خدا سے پوچھیں گے
کیفی فریدی
No comments:
Post a Comment