دن بھی ہوا طلوع سیہ رات کی طرح
اب کے بہار آئی ہے برسات کی طرح
حد نگاہ تک ہے عجب خاک سی اڑی
گزرا ہے کون بھاگتے لمحات کی طرح
قائم رہے سدا یہ مِری گردش حیات
غم بھی عطا کیے مجھے سوغات کی طرح
دل کے قریب رہ کے جو آخر بچھڑ گیا
آیا ہے یاد بھولی ہوئی بات کی طرح
کیا جستجوئے رسم وفا کیجیے کہ اب
ہے التفات یار بھی خیرات کی طرح
صبح سفر جو گھر سے نکالے قدم تو ہم
تا دیر لڑکھڑاتے پھرے پات کی طرح
اشرف قدسی
No comments:
Post a Comment