آثار دیکھتا ہوں میں آثار سے الگ
خبریں سنا رہے ہیں جو اخبار سے الگ
یہ انہدام کے کہیں آثار تو نہیں؟
سایہ کھڑا ہے دھوپ میں دیوار سے الگ
یہ انتظار ہے کسی پل کا یا احتیاط
بیمار دار بیٹھے ہیں بیمار سے الگ
پہلے تو نیک و بد ہی کی تفریق تھی یہاں
اب ہے گناہ گار، گنہگار سے الگ
میں جان بوجھ کر نہیں گھر سے جدا ہوا
مجھ کو کیا گیا بڑے اصرار سے الگ
پھر یوں ہوا کہ قافلے والے بچھڑ گئے
رفتار ان کی تھی مِری رفتار سے الگ
پھر اس کے بعد اس پہ تصرف نہیں رہا
جب دائرہ ہوا مِری پرکار سے الگ
مجھ پر کواڑ گھر کے مقفل کیے گئے
رستہ بنا رہا ہوں میں دیوار سے الگ
پانی نے کشتیوں کو فقط راستے دیے
پانی کبھی ہوا نہیں پتوار سے الگ
جھوٹا نہیں تھا، خوف کا مارا ہوا تھا میں
گفتار تھی مِری مِرے افکار سے الگ
تا حال بیچنے کو مِرے پاس کچھ نہیں
بیٹھا ہوا ہوں گرمئ بازار سے الگ
علمدار حسین نقوی
No comments:
Post a Comment