اک نشۂ بیدار کی وسعت کا سفر تھا
کیا جانیے کس عالم حیرت کا سفر تھا
پُر ہول زمانوں میں رواں تھا دل تنہا
تا صبحِ ازل ایک قیامت کا سفر تھا
بس یاد ہے اتنا کہ مِرے سامنے میں تھا
معلوم نہیں کون سی حالت کا سفر تھا
مارے گئے ہم اہلِ خبر بے خبری میں
اک درد کی جانب، مئے عشرت کا سفر تھا
ہر گام پہ تھے پھول، عطا سنگ بدست آج
درپیش مگر کُوئے ملامت کا سفر تھا
قاضی عطاءالرحمٰن
No comments:
Post a Comment