Tuesday, 17 September 2024

اک نشۂ بیدار کی وسعت کا سفر تھا

 اک نشۂ بیدار کی وسعت کا سفر تھا

کیا جانیے کس عالم حیرت کا سفر تھا

پُر ہول زمانوں میں رواں تھا دل تنہا

تا صبحِ ازل ایک قیامت کا سفر تھا

بس یاد ہے اتنا کہ مِرے سامنے میں تھا

معلوم نہیں کون سی حالت کا سفر تھا

مارے گئے ہم اہلِ خبر بے خبری میں

اک درد کی جانب، مئے عشرت کا سفر تھا

ہر گام پہ تھے پھول، عطا سنگ بدست آج

درپیش مگر کُوئے ملامت کا سفر تھا


قاضی عطاءالرحمٰن

No comments:

Post a Comment