Monday 16 September 2024

بتوں سے ڈرتا رہا ہوں خدا کے ہوتے ہوئے

 بُتوں سے ڈرتا رہا ہوں خُدا کے ہوتے ہوئے

سو مُشکلوں میں ہوں مُشکل کُشا کے ہوتے ہوئے

کہاں کہاں نہیں سجدے مِری جبیں نے کیے

میں در بدر پھرا حاجت روا کے ہوتے ہوئے

مِرا یزید کی بیعت بغیر چارہ نہ تھا

در حسینؑ کے اور کربلا کے ہوتے ہوئے

یہ لا الہٰ کی شمع ہے، یوں جلے گی نہیں

حدودِ دل میں کسی دیوتا کے ہوتے ہوئے

یہ تیز تیز دھڑکتا ہوا مِرا دل ہے 

میں حوصلے میں نہیں  نا خُدا کے ہوتے ہوئے

خُدا کسی کو بھی وہ دل کبھی عطا نہ کرے

جو نا اُمید ہو روز جزا کے ہوتے ہوئے

مِرا عدُو مجھے بے دست و پا سمجھتا رہا

میں خالی ہاتھ نہیں تھا دُعا کے ہوتے ہوئے

یہ کیفیت مِرے باہر نہیں تھی، اندر تھی

عجیب حبس تھا آب و ہوا کے ہوتے ہوئے

کوئی کمی تو بہر کیف تھی مِرے اندر

میں بے نوا تھا ، توانا صدا کے ہوتے ہوئے

لہو جگر کا جلانے کی دیر ہے ان میں 

مِرے چراغ جلیں گے ہوا کے ہوتے ہوئے


علمدار حسین نقوی

No comments:

Post a Comment