Sunday, 15 September 2024

اسی یقین پہ کاٹی سزا اداسی کی

 اسی یقین پہ کاٹی سزا اداسی کی

کبھی تو سر سے ٹلے گی بلا اداسی کی

یہ نخل دل ہے مسرت میں کھل سکے گا نہیں

اسے تو راس ہے آب و ہوا اداسی کی

جہاں کی جتنی بھی کیفیتیں ہیں دیکھ چکے

مگر ہے شان سبھی سے جدا اداسی کی

نہیں ہے بچوں کے چہروں پہ بھی ہنسی اب تو

کچھ ایسی پھیل گئی ہے وبا اداسی کی

فراز! تُو نے غزل کو نہال ایسا کیا

نہ اب یہ اوڑھے گی ہر گز ردا اداسی کی

تم ابتدا ہی میں گھبرا گئے ہو کیوں یارو

ابھی تو دیکھنی ہے انتہا اداسی کی


واصف سجاد

No comments:

Post a Comment