اسی یقین پہ کاٹی سزا اداسی کی
کبھی تو سر سے ٹلے گی بلا اداسی کی
یہ نخل دل ہے مسرت میں کھل سکے گا نہیں
اسے تو راس ہے آب و ہوا اداسی کی
جہاں کی جتنی بھی کیفیتیں ہیں دیکھ چکے
مگر ہے شان سبھی سے جدا اداسی کی
نہیں ہے بچوں کے چہروں پہ بھی ہنسی اب تو
کچھ ایسی پھیل گئی ہے وبا اداسی کی
فراز! تُو نے غزل کو نہال ایسا کیا
نہ اب یہ اوڑھے گی ہر گز ردا اداسی کی
تم ابتدا ہی میں گھبرا گئے ہو کیوں یارو
ابھی تو دیکھنی ہے انتہا اداسی کی
واصف سجاد
No comments:
Post a Comment