Wednesday 11 September 2024

وہ جو شام تھی تیرے نام تھی

 شہید جمہوریت بینظیر بھٹو کے نام


وہ جو شام تھی

تیرے نام تھی

تھی نظر نظر تیری منتظر، میری راہبر

میرے خواب کی تُو اساس تھی

تُو ہی تو مِری غم شناس تھی

میری آس تھی

تُو جہانِ نو کی نوید تھی

نئی منزلوں کی کلید تھی

تیری دید ہی میری عید تھی

تجھے کیا خبر، مجھے کیا خبر

ہے مِرا عدو وہی تِرا عدا

جو تِرا عدا وہ مِرا عدو

اسے کب گوارا تھی تیری ذات

اسے کب گوارا تھی میری بات

وہ بھی ایک ساتھ

اسی بات پر اسی شام کو

تھا لہو لہو میرے چار سُو

میری چشمِ نم تھی دُھواں دُھواں

میں تھا بے رِدا، میں تھا بے اماں

تُو نہیں ہے پھر بھی تُو ہے وہاں

ہے تِرے لہو کی یہ روشنی

جو ہے تیرگی میں رواں دواں

میری رہنما، میری مہرباں

تُو تو اب بھی صُبحِ نوید ہے

نئی منزلوں کی کلید ہے

تیری دید ہی میری عید ہے


ایوب ندیم 

No comments:

Post a Comment